بهت عرصه پهلے ایک انگریزی کے لیکچرر نے انگریزی ادب کا ترجمہ کرنے کا مشوره دیا تها- اس وقت میرا جواب یہ تها کہ دونوں زبانوں پر میرا عبور ادبی معیار کا نہیں هے۔
اگر چہ اس بات کو ایک دھایئ سے بهی ذیاده عرصه ہو چکا هے۔ لیکن بهلا هو کوویڈ ۱۹ قرنطینہ کا کہ فراغت کی کثرت کی وجہ سے ذہن میں پڑے پرانےخیالات بهی تاذه هونے لگے۔ انگریزی ادب کا اردو میں ترجمہ بهی ان میں سے ایک هے۔اگر کوئ مجھ سے یہ سوال کرے کہ انگریزی ادب کا ترجمه هی کیوں؟ تو میرے پاس کوئ بڑی بڑی دلیلیں نهیں هیں، بس یہ کہ مجهے ذاتی طور پر دوسری زبانوں سے ترجمہ شده کتابیں پڑهنے میں لطف آتا هے۔ اب چونکہ مجهے یهی دو زبانیں(انگریزی اور اردو) معلوم هیں، تو خیال یہ هے کہ شاید کوئ ایسا هو کہ پڑهے اور پسند کریں۔ ویسے مجهے یقین هے کہ اگر میری یہ ک کوی انقلاب نہ لاسکے تو نقصان کا بهی بهرحال امکان نهیں۔ یہ تراجم نهایت هی بے تکلف اور میری ذاتی ترجیح پر بنیاد ہیں، لهذا اس میں ذیاده تکلفات اور منطقیں ڈهونڈنے کی ضرورت نهیں۔ پڑّھیۓ، اگر پسند هوں تو سر دهیۓ اور اگر ناپسند هو تو میری دهلايئ کرنے کی ضرورت نهیں خوامخواه هی اپکے الفاظ اور جزبات ضایع هونے کا خطره هے۔
میرا دل چاه رها تها کہ شروع ورجینیا وولف کی مختصر کهانیوں سے کروں لیکن وه بهت مشکل مصنف هیں اور میں ایک اناڑی۔
سو نظر جیمز بالڈون کی مختصر کهانیوں پر پڑی جو کہ یکساں طور پر بچوں اور بڑوں کیلۓ لکهی گئ تهیں۔ یہ ذیاده پیچیده نهیں، تو مجهے ترجمہ کرنے میں آساني هوگی۔
لهذا شروع 'جیمز بالڈون' کی مختصر کهانی سے کرتے هیں جس کا عنوان هے
"جولیس سیزر"
No comments:
Post a Comment